Friday 27 December 2013

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم ۔۔۔




بچپن دامن چھڑانے لگے تو سن بلوغت میں قدم رکھتے نوعمر کی آنکھوں میں سنہرے خواب سجنے لگتے ہیں اور وہ اپنے اردگردکی شخصیات سے مرعوب ہو کر ان میں خود کو تلاش کرتے ہیں ۔میرے خیال میں شاید یہیں سے شخصی تعمیر کا عمل شروع ہو جاتا ہے ۔  یہ اسکول کے دنوں کی بات ہے جب میں نے ایک پروقار ، نڈر اور بہادر خاتون کو سرکاری ٹی وی کی اسکرین پر دیکھا۔  چمکتی آنکھیں، شائستہ لہجہ اور سر پر نہایت سلیقے سے سجا ہرا دوپٹہ، یہ تھیں محترمہ بے نظیر بھٹوجنہوں نے تاریخ کی سب سے کم عمر اور عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔  

انہوں نے عورت کےہرروپ سے خوب انصاف کیا، خوددار بیٹی جو باطل کے سامنے ڈٹ گئی، سربراہ مملکت جنہیں دو مرتبہ بے دخل کیا گیا لیکن انکے مضبوط ارادے نہ توڑے جاسکے، محبت اور پیار کے جذبے سے سرشارعظیم ماں غرض یہ کہ دنیا کی مدبر سیاستدان سے گھریلو زندگی تک انکا ہر رنگ دلکش تھا ۔اپنی سیاسی وابستگی اور نظریات سے قطع نظر یہ فولادی خاتون ہر لڑکی کے لیے آئیڈیل کا درجہ رکھتیں ۔ ان سے ملاقات ہو جائے گی کبھی سوچا بھی نہ تھالیکن دو ہزار سات میں انکی وطن واپسی پرکارساز حملے کے بعد جب انہوں نے جنگ اورجیو کے دفاتر کا دورہ کیا اسوقت میں مجھےاچانک بتایا گیا کہ محترمہ پانچویں فلور پر ہیں اور کچھ دیر میں چھٹے فلور پر بنے اسٹوڈیو میں تشریف لائیں گی ۔ جہاں سے میں پروگرام یہ ہے پاکستان- کررہی تھی اور اسی پروگرام میں مجھے انکا انٹرویو کرنا تھا۔ یہ خوشگوارلمحہ ناقابل یقین تھا کہ میں اس سرانگیز شخصیت کاانٹرویو کرنے جارہی ہوں جو خواتین کےلیے مثالی نمونہ ہیں ۔ لیکن بد قسمتی سے محترمہ کو سیکورٹی وجوہات کی بنا پر سیڑھیاں چڑھنا پڑی تھیں جسکی وجہ سے وہ خاصی نڈھال ہو چکی تھیں ،یوں وہ دورہ مختصر کر کے جلد واپس چلی گئی ۔ اور میری انکا انٹرویو کرنے کی خواہش نہ پوری ہو سکی ۔ پھر دسمبر کی قاتل اداس شام پاکستان کا قومی المیہ بن گئی جب یہ عظیم خاتون ہم سے چھین لی گئیں۔

رواں برس مارچ کے مہینے میں ایسٹ ویسٹ سینٹر کے پروگرام کے تحت امریکہ جانا ہوا۔ وہاں بے نظیر بھٹو کے قریبی ساتھی اور لابسٹ مارک سیگل سے ملاقات کا موقع ملا۔اس گھنٹہ بھر کی گفتگو کے دوارن میں نے بی بی کے حوالے سے اپنی تمام تر تشنگی دور کرنے کی کو شش کی ۔ جہاں انکے قتل کے سیاسی محرکات پر بات ہوئی وہیں انکی نجی زندگی کے حوالے سے بھی مارک سیگل نے کئی پہلووں پر روشنی ڈالی ۔  بے نظیر بھٹو نے اکتوبر2007کے حملے کے بعد مارک سیگل کو ای میل کی تھی کہ اگر ان کے ساتھ کچھ ہو جاتا ہے تو کون ذمہ دار ہوگا۔ تاہم سیگل نے ای میل کے مزید مندرجات بتانے سے گریز کیا ۔ ای میل میں بے نظیر نے اس خط کا بھی ذکر کیا جس میں انہوں نے اپنی زندگی سے خطرات کے بارےمیں  تین افراد کا ذکر کیا ۔سیگل کے مطابق ای میل میں بے نظیر بھٹو نے اپنی جان کو خطرات اور سیکورٹی کے بارے میں ذکر کیا تھا،ان باتوں کو دہراتے ہوئے مارک سیگل کی آنکھیں کبھی چمکنے لگتیں اور کبھی چہرہ ایسے غمزدہ ہو جاتا کہ جیسے ابھی ابھی انہیں بی بی کی شہادت کی خبر ملی ہو ۔

کچھ ایسا ہی حال ہمارا بھی ہے، یہ وہ زخم ہے جو رستا رہے گا۔ محترمہ بے نظیربھٹو کا قتل نہ صرف پاکستانی تاریخ کا ایک کربناک اور دور رس نتائج کا حامل افسوسناک واقعہ ہے بلکہ اس کے عالمی اثرات بھی بڑے واضح ہیں۔ دور دور تک نظر دوڑایئں توپاکستان میں اس پایہ کی خاتون لیڈر نظر نہیں آئیں گی جو خواتین کے لیے عزم وہمت کا نشان اور رول ماڈل ہو، کیونکہ بی بی واقعی نایاب تھیں۔

ناجیہ اشعر


No comments:

Post a Comment