Saturday 19 January 2013

 

                                    
پاکستان کا نیا چہرہ


پاکستانی عوام بھی بڑے عجیب ہیں ، محاذ جنگ پر ہوں، توجسموں سے بارود باندھ کر ٹینکوں کے آگے لیٹنے سے نہ چوکیں ،سخت حالات کے باوجو د بھی دہشتگردی کے خلاف سینہ سپر کھڑے، جذباتی اس قدر کہ غم وغصے میں اپنی ہی املاک کو تہس نہس کر کے جلا ڈالیں، اور ریاست بچانے نکلیں تو گھر ، زیورات اور عمر بھر کی جمع پونجی لٹا کر بیوی بچوں سمیت سڑکوں پر جا بیٹھیں ۔یہ قوم پریشانیوں میں گرفتار، بجلی، پانی اورگیس سے محروم انتہائی سخت جان ثابت ہوئی ہے اسکا گواہ اسلام آباد کاجناح ایونیو ہے جہاں چار روزہ دھرنے میں عوامی مزاج کے کئی رنگ دیکھنے کو ملے۔ لانگ مارچ کے شرکا جن میں عورتیں بچے اور بزرگ شامل تھے سخت موسم ، نامساعد حالات میں صبر و استقامت کی تصویر بنے رہے، پنڈال میں نعرے بلند ہوتے رہے اور فضا ترانوں سے گو نجتی رہی ۔ شدید سردی میں ٹھنڈی زمین پر بیٹھے ہزاروں مظاہرین حکومت سے تقاضا کررہے تھے کہ پاکستان کے اداروں میں اصلاحات کی جائیں اور اسمبلیوں میں باکردار اور باصلاحیت لوگوں کے لیے راہ ہموار کی جائے ۔
ایسے میں ڈاکٹر طاہرالقادری جو اپنی جارحانہ تقاریر میں حکمرانوں کو ظالمو،بدمعاشوں اور یزیدیوں سے تشبیہ دیتے رہے ان ہی کی نمائندہ کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کی ٹیبل پر آگئے حالانکہ وہ جانتے تھے کہ مذاکرات کے لیے آنے والے دودھ سے دھلے نہیں یہ وہی لوگ ہیں جن پر کرپشن کے الزامات ، مقدمات اور نیب کی تحقیقات کا سامنا ہے ۔ ادھر اپوزیشن جماعتیں نگران سیٹ پر مشاورتی اجلا س ہی کرتی رہ گئی تحریک انصاف بارہویں کھلاڑی کی طرح انتظار کرتی رہی اور ایم کیوایم لانگ مارچ سے دستبردارہونے کے باوجود بھی مذاکراتی ٹیم کا حصہ بن کر سرخرو ہو گئی ۔یوں سارے کھیل میں صدر زرداری اور انکے اتحادی فاتح رہے۔ شیطان ملک کا خطاب پانے والے رحمان ملک نے جو پس پردہ کردار ادا کیا وہ بھی قابل ستائش ہے سینہ ٹھوک کر کہا کہ قادری صاحب کو جمعرات کو اسلام آباد چھوڑنا ہوگا ، ٹارگٹڈ آپریشن کی دھمکی، کچھ ڈھکے چھپے مالیاتی امور، دہری شہریت اور کچھ دستاویز ی ثبوت منظرعام پر لانے کا انکشاف ڈاکٹر صاحب کو ٹیبل پر لے ہی آیا۔اب جمہوریت کے حامی سترہ جنوری دوہزار تیرہ کے دن کو پاکستان کی تاریخ کا روشن باب اور اسلام آباد ڈیکلریشن کو جمہوریت کا تاریخی دستاویزقرار دے رہے ہیں۔

جیت حکومت کی تھی جمہوریت کی یا پھر عوام کی، انقلاب برپا ہوا یا نہیں اس پر مختلف حلقوں میں بحث جاری رہے گی ۔۔اور تیرہ جنوری سے سترہ جنوری تک جاری رہنے والے پانچ روزہ لانگ مارچ میں امن پسند اور منظم شرکا کی تعداد ہزاروں میں تھی یا لاکھوں میں اس پربھی آرا مختلف ہو سکتی ہیں لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام ان پانچ روز میں کمرشل اور سوشل میڈیا کے قیدی بنے رہے اور انکی نظریں ٹی وی ، اخبارات اور سماجی ویب سائیٹس پر جمی رہیں ۔ جو لوگ دھرنے میں شریک نہ تھے وہ بھی اپنے خیالات کا اظہار کسی نہ کسی فورم پر کرتے رہے ۔ دنیا بھر نے پاکستان کا نیا چہرہ دیکھا اور کہنے پر مجبور ہو گئی کہ ایسا منظر، اور پرامن احتجاج ، جہاں گولی تو دور کی بات ایک پتھر بھی نہ چلا، پاکستان کی تاریخ میں کہیں نہیں دیکھا ۔ یعنی امید قائم ہے ،اندھیرے چھٹ رہے ہیں اور ایک نئی صبح کا سورج پوری آب و تاب سے جلوہ گر ہونے کو ہے کیونکہ پاکستان میں رہنےوالےاب قوم کی شکل اختیارکررہےہیں۔۔!

 

Tuesday 15 January 2013

                


                  مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے !

گذشتہ دس سالوں میں جس دوران میڈیا پروان چڑھ رہا تھا ہم نے انتہائی دردناک، روح کو جھنجوڑ دینے والے مناظرنہ صرف دیکھے بلکہ انکی کوریج بھی کی اس دوران پاکستانی قوم زلزلے اور سیلابوں جیسی قدرتی آفات اور دہشتگردی کے طوفان سے نبردآزما رہی ہے ۔خاص طور پر سال دو ہزار نو سے اب تک پاکستان دھماکو ں سے گونجتا رہا انسانی جسم کے اعضا فضا میں بکھرتے رہے اور لاشیں اٹھتیں رہیں ۔دس جنوری دوہزار تیرہ  کو کوئٹہ میں ہونے والے دھماکے ،نوعیت اور جانی نقصان  کے لحاظ سے انوکھے نہ تھے  لیکن چھیاسی میتوں کے ساتھ خواتین ، بچے، بوڑھے کھلے آسمان تلے بے یارومددگار انصاف کے منتظر، کیا دنیا بھر میں کبھی ایسا نظارہ دیکھنے کو ملا ؟     سانحہ کوئٹہ کے لواحقین نے پیاروں کو دفنانے سے انکار کرتے ہوئے تین دن اور تین راتیں منفی درجہ حرارت میں غم وغصے سے نڈھال بھوک وپیاس کے عالم میں گذار دیں  ۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آج ان میتوں کو سپردخاک کردیا تو کل پھر اپنے چاہنے والوں کے لاشے اٹھانے پڑیں گے ۔ ہزارہ قبائل کی یہ تکلیف پورے ملک میں محسوس کی گئی اور پھر احتجاج
اسلام آباد، کراچی ،لاہور ، پشاور سمیت سندھ، بلوچستان اورخیبر پختونخوا کے دیگر شہروں تک پھیل گیا۔
ظلم کا شکار ہزارہ قبائل کا مطالبہ یہ تھا کہ فوج کو طلب کیا جائے۔ اس نازک مرحلے پر ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کا ردعمل خاصا محتاط رہا  اور انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تحریک منہاج القران کے لانگ مارچ کی میڈیا مہم نے سانحہ کوئٹہ کی طرف سے حکومت ، عوام اور میڈیا کی توجہ بٹانے کی کوشش کی ۔تو دوسری جانب دھرنے میں سول سو سائٹی کی تاخیر سے شمولیت بھی افسوسناک تھی ۔
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
بلوچستان کابینہ کو کیا سزا دی جائے جو کوئٹہ کے بجائے اسلام آباد میں کابینہ  اجلاس کرتی  رہی اورمظلوم عوام کی داد رسی تو دور کی بات ان سے اظہاریکجہتی بھی نہ کرسکی ۔ جبکہ وزیراعلی تمام حالات سے بے خبر بیرون ملک  سیر سپاٹے میں  مصروف رہے ۔۔
 ادھرلانگ مارچ نے حکمران جماعت پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کومشترکہ مفادات کے تحت  کافی قریب لاکھڑا کیا۔ دوسری جانب سندھ کی بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کو پیپلز پارٹی نے لانگ مارچ میں شرکت نہ کرنے پر مجبور کیا، اور یوں ایم کیو ایم شرمندگی کا شکار، لواحقین سانحہ کوئٹہ سے صرف اظہار یکجہتی کے لیے پرامن سوگ پرہی  اکتفا  کر سکی ۔ مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین جو ڈاکٹر طاہرالقادری کی چوکھٹ پکڑے انہیں لانگ مارچ سے روکنے کی منتیں کرتے رہے ، دوسری جانب سانحہ کوئٹہ پر فوج کو آواز دے رہیں ہیں کہ فوج کسی کا انتظار کیئے بغیر بلوچستان کا کنڑول سنھبال لے ۔تحریک انصاف  نے وزیراعلی بلوچستان کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا اور جے یو آئی ف نے ان ہاؤس تبدیلی چاہی  ،
بہرحال تمام اسٹیک ہولڈرز ، سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد بلوچستان میں صوبائی حکومت برطرف کر کے آئین کے آرٹیکل دو سوچونتیس کے تحت گورنر راج نافذ کر دیا گیا ۔ اور تمام اختیارات گورنر ذوالفقارمگسی  کو دے دیئے گئے ۔جو اب صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہونگے ۔بلوچستان حکومت ختم کرکے وفاق نے کوئی تیر نہیں ماراکیونکہ  ابھی کچھ عرصے قبل ہی تو  چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا تھا  کہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعدبلوچستان حکومت کے پاس کوئی جواز نہیں کہ وہ حکمرانی کرے،۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا گورنر راج کا نفاذ سانحہ کوئٹہ کے مظاہرین اور ملک بھر میں انکے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے والوں کی جیت ہے ؟
  یہ وہی گورنر ہیں جو پہلے بھی اسی سسٹم کا حصہ تھے ان سے کسی تبدیلی کی امید کیسے کی جاسکتی ہے ۔ صوبے میں امن وامان کے قیام کے لیے گورنر کے پاس وہ کونسے  اختیارات اور حکمت عملی ہے جو رئیسانی کے پاس نہ تھی ۔اور اگر خدانخواستہ پھر کوئی ایسا سانحہ ہو گیا تو کیا گورنر کو بھی گھر کی راہ دکھائی جائے گی ۔
اور پھر یہ معاملہ صرف بلوچستان تک تو محدود نہیں خیبرپختون خواہ کی فضاؤں میں بارود کی بو بسی ہوئی ہے، خوف کی چادر اوڑھے روشنیوں کے شہر کراچی کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتاہے جہاں ٹارگٹ کلنگ نے زندگی کو مفلوج کردیاہے ۔ فوج کے حوالے کیے جانے کا مطالبہ صرف کوئٹہ کا نہیں ، کراچی میں بھی ایم کیو ایم ، اے این پی اور پیپلز پارٹی کے ایم این ایز یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں  ۔ تو کیا حل یہ ہے کہ پورے ملک کو ہی فوج کے حوالے کردیا جائے۔ لیکن جناب پچھلے پانچ سالوں میں جو ظلم و ستم ہوا اسکا ذمہ دار کون ؟ بلوچستان میں حکومت نے براہ راست ہتھیار ڈال دیئےیوں تین روز بعدکوئٹہ میں  چھیاسی لاشیں تو دفنادیں گئیں لیکن لانگ مارچ کے شرکا  اسلام آبادمیں ڈیرے ڈال چکے،  ڈاکٹر طاہر القادری نے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا تو دوسری جانب سپریم کورٹ نے ملک کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی گرفتاری کا حکم جاری کردیا۔۔یکے بعد دیگرے پیش آنے والے  ان واقعات کی کڑیوں کو ملائیں تو سرا ملنا مشکل نہیں، ٹائمنگ بہت اہم ہے لیکن سوال وہی کہ ان حالا ت میں  آئے گا کوئی ا یسا کردار،  جو ہر لمحہ عوام  کی بھلائی میں کوشاں رہے۔ عوام کی تکلیف پر خود تکلیف میں مبتلا ہو جائے۔ ذمہ داری کا احساس اتنا کہ بھوک پیاس نیند آرام سب کچھ بھول کر عوام کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کردے۔ کاش!