Thursday 26 December 2013

صحافت ، خواتین کے لیے کانٹوں کی سیج




 بنکاک میں منقعدہ کانفرنس ‘‘ گلوبل فورم آن میڈیا اینڈ جینڈر’’ میں  انکشاف کیا گیا کہ تقریباً دوتہائی خواتین صحافیوں کو اپنے کام کے حوالے سے دباؤ ، دھمکی اور بدسلوکی کا سامنا ہوتاہے۔ انٹرنیشنل نیوز سیفٹی انسٹیٹیوٹ اور انٹرنیشنل ویمنز میڈیا فاؤنڈیشن کے تحت ہونے والا   پہلا عالمی سروے بتاتا  ہے کہ نصف سے زائد (64.48 فیصد) خواتین صحافیوں (822 خواتین صحافیوں سے سروے کیاگیا) کو اپنے کام کے حوالے سے بدسلوکی  کا تجربہ ہوا۔ اس عالمی کانفرنس میں جہاں صحافت کے میدان میں خواتین کو درپیش مسائل  پر روشنی ڈالی گئی وہیں ان مشکلات کے سدباب پر بھی بحث ہوئی ۔۔اب اگر اسی تناظر میں پاکستان پر ایک نظر ڈالیں تو صورتحال کوئی بہت زیادہ اچھی نہیں کیونکہ اس کانفرنس میں پاکستان کی باقاعدہ نمائندگی موجود نہیں تھی اسی وجہ سے پاکستان کے حوالے سے زمینی حقائق منظر عام پر نہ آسکے ۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں صحافت سے منسلک خواتین یوں تو طویل عرصے سے موثر طور پر اپنا کردار ادا کررہی ہیں ۔ لیکن پچھلےدس سالوں میں الیکٹرونک میڈیا نے جس تیزی سے ترقی کی اسکی بدولت خواتین کے لیے بے شمار مواقع پیدا ہوئے کہ وہ بہتر طریقے سے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر معاشرے کا فعال حصہ بن سکیں ۔ آج خواتین کی بہت بڑی تعداد چوبیس گھنٹے ساتوں دن ، الیکٹرونک میڈیا میں اپنے فرائض بخوبی انجام دے رہی ہیں ۔ انتھک محنت، بے لوث خدمت  اور جدوجہد کے باوجود دیگر شعبوں کی بہ نسبت صحافت ،خواتین کے لیے کانٹوں کی سیج  ثابت ہوئی ہے ۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایسے واقعات  کی رپورٹنگ تو دور کی بات  ،   دباؤ ، دھمکی ، بدسلوکی کا شکار  یا   ہراساں کیے جانے والی  خواتین  منظر عام سے غائب ہو جاتی ہیں  ۔کئی رپورٹرز نے ہمت کرکے بدسلوکی رپورٹ بھی کی تو وہ محض سوشل میڈیا تک محدود رہی ۔ کئی واقعات کی اداروں نے خود تحقیقات کرائیں اور معاملہ فائلوں میں دبا دیاگیا۔ اور یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ اپنے ساتھ بدسلوکی کی  شکایت کرنے والی خواتین کچھ وقت  کام کرنے کے بعد خاموشی کے ساتھ اپنے گھروں میں بیٹھ گئیں اور اپنے گھر کی کفالت کرنے والی وہ خواتین جو بہ ضرورت مجبوری نوکری کرتیں ہیں وہ یا تو میڈیا سے الگ ہو جاتیں ہیں یا پھراپنے مرد نگراں افسر اور ساتھی کارکنوں کے رویے کو نظرانداز کرکے  خاموشی اختیار کر لیتی ہیں ۔دھونس دھمکی اور ہراساں کرنے کے واقعات صرف میڈیا دفاتر تک ہی محدود نہیں، اس وقت خواتین کے لیے سب سے بڑا چیلنج فیلڈ رپورٹنگ کے دوران مختلف  شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ کام کرنا ہے ۔ جہاں انہیں سیاسی ، عسکری  اور جرائم پیشہ قوتوں سے بھی ٹکرانا ہوتا ہے ۔ یہاں انتہائی افسوسناک اور حیران کن پہلو یہ بھی ہے کہ صحافت کی تعلیم مکمل کرکے جو لڑکیاں میڈیا میں قدم رکھتی ہیں ہمارے یہاں انکا استقبال گرم جوشی سےتو کیا جاتا ہےاور انہیں لڑکوں پر ترجیح دے کر بڑی تعداد میں انٹرن شپ اور مستقل ملازمت کے مواقع فراہم کیئے جاتے ہیں ۔ لیکن جونہی انکی شادی ہوتی ہے، بچوں کی ذمہ داریوں اور خاندانی فرائض میں گھری یہی لڑکیاں افسران کو اداروں پر بوجھ محسوس ہونے لگتی ہیں ۔دوسرے شعبوں کی بہ نسبت صحافت میں مختلف شفٹوں میں کام کرنے والی خواتین کے لیے گھر اور نوکری میں توازن قائم کرنا آسان کام نہیں ہوتا ، جہاں بدسلوکی ، دباؤ یا ہراساں نہیں کیا جاتا تو وہاں گھریلو    زمہ داریوں کو بہانہ بنا کر انکی  حوصلہ شکنی کی جاتی ہے یوں  بہت جلد خواتین کو کوئی ایک راستہ چننا پڑتا ہے  ۔ یہی وجہ کہ پاکستان میڈیا کے اداروں میں گنی چنی خواتین ہی سینئر عہدوں تک پہنچ سکی ہیں ۔ دوسری جانب ایڈیٹوریل پالیسی میں خواتین کا عمل دخل بھی خاصا محدود  نظر آتا ہے اور انکی رائے کو مرد حضرات کے مقابلے میں کم اہمیت دی جاتی ہے ۔ لیکن خواتین کے لیے حالات خواہ کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں ، ہمت ہارنا  مسئلے کا حل نہیں اور ہمارے یہاں کی عورت بہت بہتر طریقے سے مسائل کا سامنا کرنا جانتی ہے یہی وجہ ہے کہ تیس سال تک صحافت کی خدمت کرنے والی زبیدہ مصطفی نے شدید سیاسی عدم استحکام ، میڈیا پر پابندی اور معاشرتی اتار چڑھاؤ دیکھا۔ جس پر انہیں -صحافت میں جرات کا اعزاز-  -کے واحد بین الاقوامی اعزاز سے نوازا گیا ۔پاکستانی میڈیا میں عزم وہمت کا نشان بن جانے والی   رضیہ بھٹی کو بھی بین الاقوامی پزیرائی حاصل ہوئی۔ شیری رحمان  پہلی پاکستانی صحافی ہیں جنہیں  برطانوی ہاؤس آف لارڈ کی طرف سے آزادی صحافت کا  ایوارڈ مل چکا ہے ۔ اور آسکر ایوارڈ یافتہ صحافی شرمین عبید چنائے  ہوں یا شائستہ زید جیسی خواتین ، انہوں نے ثابت کیا ہے کہ کٹھن حالات میں بھی مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے پیشہ وارانہ فرائض انجام دیئے جا سکتے ہیں ، بس خاموشی کو توڑنا ہو گا ، چپ رہنے کارویہ بدل کر اپنی کمزوری کو دور کرلیں تو صحافت کے شعبے میں عزت و وقار کے ساتھ اپنی جگہ بنانا مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں ۔۔

ناجیہ اشعر

No comments:

Post a Comment