پاکستان
کا نیا چہرہ
پاکستانی
عوام بھی بڑے عجیب ہیں ، محاذ جنگ پر ہوں، توجسموں سے بارود باندھ کر ٹینکوں کے
آگے لیٹنے سے نہ چوکیں ،سخت حالات کے باوجو د بھی دہشتگردی کے خلاف سینہ سپر کھڑے،
جذباتی اس قدر کہ غم وغصے میں اپنی ہی املاک کو تہس نہس کر کے جلا ڈالیں، اور
ریاست بچانے نکلیں تو گھر ، زیورات اور عمر بھر کی جمع پونجی لٹا کر بیوی بچوں
سمیت سڑکوں پر جا بیٹھیں ۔یہ قوم پریشانیوں میں گرفتار، بجلی، پانی اورگیس سے محروم
انتہائی سخت جان ثابت ہوئی ہے اسکا گواہ اسلام آباد کاجناح ایونیو ہے جہاں چار
روزہ دھرنے میں عوامی مزاج کے کئی رنگ دیکھنے کو ملے۔ لانگ مارچ کے شرکا جن میں
عورتیں بچے اور بزرگ شامل تھے سخت موسم ، نامساعد حالات میں صبر و استقامت کی
تصویر بنے رہے، پنڈال میں نعرے بلند ہوتے رہے اور فضا ترانوں سے گو نجتی رہی ۔
شدید سردی میں ٹھنڈی زمین پر بیٹھے ہزاروں مظاہرین حکومت سے تقاضا کررہے تھے کہ
پاکستان کے اداروں میں اصلاحات کی جائیں اور اسمبلیوں میں باکردار اور باصلاحیت
لوگوں کے لیے راہ ہموار کی جائے ۔
ایسے
میں ڈاکٹر طاہرالقادری جو اپنی جارحانہ تقاریر میں حکمرانوں کو ظالمو،بدمعاشوں اور
یزیدیوں سے تشبیہ دیتے رہے ان ہی کی نمائندہ کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کی ٹیبل پر
آگئے حالانکہ وہ جانتے تھے کہ مذاکرات کے لیے آنے والے دودھ سے دھلے نہیں یہ وہی
لوگ ہیں جن پر کرپشن کے الزامات ، مقدمات اور نیب کی تحقیقات کا سامنا ہے ۔ ادھر
اپوزیشن جماعتیں نگران سیٹ پر مشاورتی اجلا س ہی کرتی رہ گئی تحریک انصاف بارہویں
کھلاڑی کی طرح انتظار کرتی رہی اور ایم کیوایم لانگ مارچ سے دستبردارہونے کے
باوجود بھی مذاکراتی ٹیم کا حصہ بن کر سرخرو ہو گئی ۔یوں سارے کھیل میں صدر زرداری
اور انکے اتحادی فاتح رہے۔ شیطان ملک کا خطاب پانے والے رحمان ملک نے جو پس پردہ
کردار ادا کیا وہ بھی قابل ستائش ہے سینہ ٹھوک کر کہا کہ قادری صاحب کو جمعرات کو
اسلام آباد چھوڑنا ہوگا ، ٹارگٹڈ آپریشن کی دھمکی، کچھ ڈھکے چھپے مالیاتی امور،
دہری شہریت اور کچھ دستاویز ی ثبوت منظرعام پر لانے کا انکشاف ڈاکٹر صاحب کو ٹیبل
پر لے ہی آیا۔اب جمہوریت کے حامی سترہ جنوری دوہزار تیرہ کے دن کو پاکستان کی
تاریخ کا روشن باب اور اسلام آباد ڈیکلریشن کو جمہوریت کا تاریخی دستاویزقرار دے
رہے ہیں۔ جیت حکومت کی تھی جمہوریت کی یا پھر عوام کی، انقلاب برپا ہوا یا نہیں اس پر مختلف حلقوں میں بحث جاری رہے گی ۔۔اور تیرہ جنوری سے سترہ جنوری تک جاری رہنے والے پانچ روزہ لانگ مارچ میں امن پسند اور منظم شرکا کی تعداد ہزاروں میں تھی یا لاکھوں میں اس پربھی آرا مختلف ہو سکتی ہیں لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام ان پانچ روز میں کمرشل اور سوشل میڈیا کے قیدی بنے رہے اور انکی نظریں ٹی وی ، اخبارات اور سماجی ویب سائیٹس پر جمی رہیں ۔ جو لوگ دھرنے میں شریک نہ تھے وہ بھی اپنے خیالات کا اظہار کسی نہ کسی فورم پر کرتے رہے ۔ دنیا بھر نے پاکستان کا نیا چہرہ دیکھا اور کہنے پر مجبور ہو گئی کہ ایسا منظر، اور پرامن احتجاج ، جہاں گولی تو دور کی بات ایک پتھر بھی نہ چلا، پاکستان کی تاریخ میں کہیں نہیں دیکھا ۔ یعنی امید قائم ہے ،اندھیرے چھٹ رہے ہیں اور ایک نئی صبح کا سورج پوری آب و تاب سے جلوہ گر ہونے کو ہے کیونکہ پاکستان میں رہنےوالےاب قوم کی شکل اختیارکررہےہیں۔۔!